Top 50 Ishq Mohabbat Shayari in Urdu Hindi Sms | Ishq Poetry

Ishq Poetry Ghazliat Part

Jab Se Tu Ne Mujhe Diwana Bana Rakkha Hai

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے

پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

♥≡♥≡♥≡♥≡♥

Ishq To La Elaaj Hota Hai

کب دعاؤں کا محتاج ہوتا ہے
عشق لاعلاج ہوتا ہے

اس کے اپنے اصول ہوتے ہیں
اس کا اپنا رواج ہوتا ہے

عشق کے ع سے عبادت ہے
عشق روح کا اناج ہوتا ہے

عشق جسموں کو سَر نہیں کرتا
اِس کا ذہنوں پے راج ہوتا ہے

عشق میں شاہ فقیر ہوتا ہے
عشق کانٹوں کا تاج ہوتا ہے

عشق میں کوئی حد نہیں ہوتی
عشق میں کل نہ آج ہوتا ہے

عشق خود ہی ظلم کرتا ہے
عشق خود احتجاج ہوتا ہے

♥≡♥≡♥≡♥≡♥

Husn Ghamzay ki Kashakush Se Chuta Mere Bad

حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد

منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی
ان کے ناخن ہوئے محتاج حنا میرے بعد

در خور عرض نہیں جوہر بیداد کو جا
نگہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

ہے جنوں اہل جنوں کے لیے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیت مہر و وفا میرے بعد

آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد

تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

♥≡♥≡♥≡♥≡♥

Us Ny Kaha Tha Ishq Dhong Hai

اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے
میں نے کہا

تجھے عشق ہو خدا کرے
کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھیں پرنم رہا کریں
تو اس کی باتیں سنا کرے
تو اس کی باتیں کیا کرے
تجھے عشق کی وہ جھڑی لگے
تو ملن کی ہر پل دعا کرے
تو نگر نگر صدا کرے
تو گلی گلی پھرا کرے
تجھے عشق ہو پھر یقین ہو
اسے تسبیح پہ پڑھا کرے
پھر میں کہوں عشق ڈھونگ ہے
تو نہیں نہیں کیا کرے

♥≡♥≡♥≡♥≡♥

Ek lafz-e-Mohabbat Ka Adna Ye Fasana Hai

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانا ہے

یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانا ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانا ہے

دل سنگ ملامت کا ہر چند نشانا ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے دل ہی تو زمانا ہے

ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے

وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے

شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانا ہے
فطرت مرا آئینا قدرت مرا شانا ہے

جو ان پہ گزرتی ہے کس نے اسے جانا ہے
اپنی ہی مصیبت ہے اپنا ہی فسانا ہے

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے

آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانا ہے

ہم درد بہ دل نالاں وہ دست بہ دل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم تیرا ہی زمانا ہے

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

اے عشق جنوں پیشہ ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستم گر کو ہنس ہنس کے رلانا ہے

تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی
آ نکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

خود حسن و شباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھیے اب وہ ہیں آئینہ ہے شانا ہے

تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے

یہ حسن و جمال ان کا یہ عشق و شباب اپنا
جینے کی تمنا ہے مرنے کا زمانا ہے

مجھ کو اسی دھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے وہ اب آئے لازم انہیں آنا ہے

خودداری و محرومی محرومی و خودداری
اب دل کو خدا رکھے اب دل کا زمانا ہے

اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانا ہے

آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگرؔ لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے رہ جائے سو دانا ہے

جگر مراد آبادی

♥≡♥≡♥≡♥≡♥

Jab Se Tu Amil e Farmooda e Islaf Nahi

جب سے تو عاملِ فرمودۂ اسلاف نہیں
نام انصاف کا باقی ہے پہ انصاف نہیں

ضربِ شمشیر، بجا! نعرۂ تکبیر درست
سب ہے! بس تجھ میں مجاہد سے وہ اوصاف نہیں

کیا بہانہ ہے مرے قلب کو ٹھکرانے کا
کرچیاں دیکھ کے کہتے ہیں کہ ”شفاف نہیں!“

بش کی مانند مجھے اپنا عمل لگتا ہے
ظاہراً صاف ہے، اندر سے مگر صاف نہیں

یا خدا! امتِ احمد بھی وہی تو بھی وہی
کیا سبب ہے کہ وہ پہلے کے سے الطاف نہیں

آہ! یہ عشق بھی کیسا ہے ترا جس میں شکیبؔ
عشق کا عین نہیں شین نہیں قاف نہیں

♥≡♥≡♥≡♥≡♥

Leave a Comment